تم میں ہے اِک نشہ بھرا جاناں
جس نے مدہوش کر دیا جاناں
جس گھڑی لے لیا تھا بانہوں میں
بس کے قابو سے بس گیا جاناں
زہر سا جام پی کے لب سے میں
ہوش اور خرد کھو چکا جاناں
عالمِ مستیِ رفاقت میں
جاناناں، کچھ تو اب پلا جاناں
بیچی سورج کو روشنی جس نے
رخِ روشن وہی ترا جاناں
تم حسینِ جہان ہو جانم
حسن تم پر ہے مر مٹا جاناں
ہو گیا گنگ ہی سخن میرا
عقل سے تم ہو ماوراء جاناں
گِھستے گِھستے لفاظِ مدحت میں
لب جلے، چھل گیا گلا جاناں
اب نہیں کوئی بھی ہوس باقی
جستجو تُم پہ ہے فنا جاناں
ہے ندامت کہ میری جاں تجھ پر
چاہ کر بھی نہیں مرا جاناں