تم چلے جاؤ یہ دِل خود ہی سنبھل جاۓ گا
ورنہ بچے کی طرح پھر سے مچل جاۓ گا
عمر بھر پھر سے نہیں ہاتھ میں آنے والا
وقت کے ہاتھ سے لمحہ جو پھسل جاۓ گا
وقت بدلا تو چلو بدلا کویٔ بات نہیں
کیا خبر تھی تِرا لہجہ ہی بدل جاۓ گا
دِل تِرا پگھلا نہیں ہم نے مگر سوچا تھا
وقت کے ساتھ یہ پتھر بھی پگھل جاۓ گا
اور تو کچھ بھی نہ بن پاۓ گا مزدوری سے
اِک دو دِن گھر کا مگر چولہا تو جل جاۓ گا
ماں نہ جِس روز رہی زندہ جہاں میں عذراؔ
گھر سے برکت کا خزانہ بھی نکل جا ۓ گا