تنہائیوں میں قافییے ملاتا رہتا ہوں
میں اکثر یادوں کے گیت گاتا رہتا ہوں
کوئی پاس نہیں خلوتِ بزم میں میرے
مگر میں کسی کو تو بُلاتا رہتا ہوں
بیٹھ جاتا ہوں میں آگوشِ الم میں
قلم اپنی سے کچھ میں لکھاتا رہتا ہوں
خود تو روتا ہوں فراقِ یاد میں
اپنے لفظوں کو بھی رُلاتا رہتا ہوں
میں درد کا شاعر بنا کیسے یارو
اپنی غزلوں میں یہ بتاتا رہتا ہوں
اِک وقت تھا شاد تھا ترے جیسے
اُس وقت کو واپس بُلاتا رہتا ہوں
عشق و محبت کی سزائیں ہے غمِ زندگی
اپنی خطا پے اب پچھتاتا رہتا ہوں
بڑی دیر سے یہ سلسلہ جاری ہے
وہ گھر توڑتے ہے میں بناتا رہتا ہوں
میرا دل بھی تیرے جیسا ہو گیا ہے
رُوٹھتا ہے بارہا میں مناتا رہتا ہوں
نہال پڑھو پہلے میری داستانِ غم
پھر پوچھنا میں کیوں آنسو بہاتا رہتا ہوں