تم کیوں مجھ سے دور جاتے جا رہے تھے
میری فتح کو شکست کرتے جا رہے تھے
میں کل شب ہی اپنے اندھیروں کو لوٹ گئی تھی
جب تم میرے سامنے اس کے ہوتے جا رہے تھے
ضبط کر کے بیٹھی رہی اپنے آنسو
اور تم مجھے رلاتے جا رہے تھے
سر جھٹک کر پہلو میں روتی رہی
میری بےبسی پر خوشیاں تم مناتے جارہے تھے
میرا دل نہیں چاھتا کسی اور کو سوا تمہارے
تم کیوں مجھے حقیقت سے ملاتے جارہے تھے
کل شب کی فضاؤں میں بھی اداسی تھی
جب تم کسی کی بانہوں میں سماتے جارہے تھے
میں سوئی نا جاگتی رہی تمام رات
تنہائی کے اندھیرے مجھ پہ ہنستے جا رہے تھے
صبح صادق سجدے میں بے حد روئی
میرا ساتھی تو نہیں جب مقدر کے حاکم یہ فیصلہ سناتے جارہے تھے