گماں سے نام جو میرا در و دیوار پہ آیا
حیا کا رنگ پھولوں سے لب و رخسار پہ آیا
وہیں پر عشق کا دعوی فنا میں بھسم ہو جائے
کبھی اک حرف بھی اسکے اگر کردار پہ آیا
اسی ذوق جنوں نے آنکھ کھولی ہے زمانے کی
اے میرے ہمنشیں جاگو میں چل کر دار پہ آیا
سنا ہے زندگی کے راز ہوتے ہیں وہاں افشا
یہی کچھ سوچ کے مٰیں بھی رہ دشوار پہ آیا
تمہیں تو لفظ کے پردوں سے بھی الجھن سی ہوتی ہے
تو سوچو وہ گھڑی جس وقت میں اظہار پہ آیا
تمہاری ہر ادا مجھ پر عیاں شیشے کی طرح ہے
مجھے معلوم ہے اقرار کیوں انکار پہ آیا
ہزاروں ہاتھ شامل ہیں فروغ خستہ حالی میں
تو پھر الزام کیوں سارا فقط معمار پہ آیا
نجانے کیسا جادو ہے تیرے دست مسیحا میں
سکوں سارا سمت کر چہرہ ء بیمار پہ آیا