تو نے اس درجہ مجھے ٹوٹ کے چاہا کب تھا
Poet: muhammad nawaz By: muhammad nawaz, sangla hillراز جو دل میں مقفل رہا کھلا کب تھا
آپ نے دل کے بند دریچوں میں جھانکا کب تھا
جانے کیوں ہو گئی افسردہ فضائے گلشن
میں نے کلیوں سے حال دل ابھی کہا کب تھا
وہ تو تقدیس نے اک بت تراش رکھا ہے
ورنہ مجھ میں تجھے پانے کا حوصلہ کب تھا
تو نے کیوں شور یہ محشر کا بپا کر ڈالا
زندگی اشک میری آنکھ سے چھلکا کب تھا
وہ تو مجبور ہوں میں خوئے خود فریبی سے
جو میری روح کا عنوان ہے میرا کب تھا
مجھے عادت ہے سرابوں کے پیچھے چلنے کی
میں نے حاصل کا تقاضا کبھی کیا کب تھا
کیسے اٹھی ہیں مٹانے کو سرپھری موجیں
میں نے ساحل پہ تیرا نام ابھی لکھا کب تھا
وہ جس میں کھو گیا انجان خواہشوں کا وجود
میری سوچوں کا دھواں تھا کوئی صحرا کب تھا
ہزاروں درد کے مارے مجھے لاچار ملے
میں تیرے کوچہ و بازار میں تنہا کب تھا
میری ہستی تیری یادوں کی سجدہ گاہ ہوتی
تو نے دل سے میرا خیال تراشا کب تھا
فریب حسن میں یہ عمر لٹا دی ہم نے
لوٹ جاؤ گے تم اک روز یہ سوچا کب تھا
آسمانوں پہ لہو کی بساط پھیل گئی
ابھی پلکوں نے تیرے نام کو چوما کب تھا
وہ جس وجود سے روشن ہیں نگاہیں اپنی
ہم نے اس حسن کی جانب کبھی دیکھا کب تھا
میری یادوں سے نکلنا تیرے بس میں ہی نہ ہو
تو نے اس درجہ مجھے ٹوٹ کے چاہا کب تھا
بے نوازوں نے توڑ ڈالا خامشی کا بھرم
دھڑکنوں نے ابھی اس ساز کو چھیڑا کب تھا
نوٹ ۔ یہ غزل پہلے رومن اردو میں شائع ہو چکی ہے ۔ اس سے اگلی غزل میں ان تمام اشعار کا جواب اشعار کی صورت میں لکھنے کی کوشش کروں گا ۔ شکریہ






