تو ہی بتا، اے جانِ تمنا! میں کیا کروں
کب تک میں اپنے جان کا سودا کیا کروں
ہر دم تصورات میں خواب و خیال میں
کس درجہ اپنے دل کو پریشاں کیا کروں
ساقی نے میرے جام میں تلچھٹ ہی بھر دیا
گھٹ گھٹ کے تلخ جام میں کیسے پیا کروں
ہوتی نہیں ہے تجھ سے کسی لمحہ التفات
کس سے میں اپنے حال کا شکوہ کیا کروں
سوچا طلوع ہوگی کبھی صبحِ جاں فزا
کب تک میں شامِ رنج کا طعنہ سہا کروں
ہر لمحہ انتظار میں میری نگاہِ شوق
تکتی ہے تیری راہ نوردی میں کیا کروں