میری آنکھ سے اُوجھل مگر نظر میں رہے
تو ہی تو حاصلِ منزل تو ہی سفر میں رہے
تو ہی ہے ظُلمتوں کا پاسباں اَجل تا اَزل
تو ہی تو نورِ انجمن تو ہی قمر میں رہے
عائل و سائل و شاہانہ تجھی سے مانگے
تو ہی تو منبعِ دعا تو ہی اثر میں رہے
میرے خرد و خیال پہ ہے تیرا پہرا عدم
تو ہی تو ہوش سراپا تو ہی سحر میں رہے
کبھی تو گامزن رہ کر ہے حوصلہ میرا
تو کبھی صورتِ سایہ نُما شجر میں رہے
کسی مقام پر تنہا نہیں رہا مجھ سے
توہی مکاں میں تو ہی خانہِ قبر میں رہے
فقط یہ آرزو بر آئے نا سِوا اِس کے
تِرا احساس ہمیشہ دلِ گوہر میں رہے