عشق تیرا تو سمندر سے بھی گہرا ہے میاں
دل تیرا ایسے میں دریا تو نہیں ہو سکتا
ہے ملوث یہاں ہر حال میں اِک آتشِ عشق
اور لوگوں نے یوں جلایا تو نہیں ہو سکتا
اس کو ڈھونڈنے تو کہیں درد کے صحراؤں کے بیچ
گھر سے نامید نکلا تو نہیں ہو سکتا
بھولا بیٹھا ہے مجھے اس طرح مدت سے وہ شخص
اس قدر مجھ سے بیگانہ تو نہیں ہو سکتا
تو ہے محفوظ تیری ماں کی دعاؤں کے عوض
تیرے سر پہ بُرا سایہ تو نہیں ہو سکتا