تُف شکوائے یار پر کہ پسِ مرگ
Poet: جہانزیب کُنجاہی By: jahanzeb kunjahi, Karachiاک عمر بیتی سکوں پانے کے لیے
زندگی جھیلی ہے مرجانے کے لیے
ضروری تھا کے ہم پاگل ہوجائیں
یہی صورت نکلی بھلانے کے لیے
آپ بے وفائی گر نا کرتے ہم سے
کہاں داستاں لکھتا زمانے کے لیے
نا حدِ خنجر دکھائیں کہ بےرخی
بس کافی ہے ہمیں ڈھانے کے لیے
تیر سینے سے آر پار کر دیا ہمارے
اک تنکا تھا چرایا آشیانے کے لیے
تف شکوائے یار پر کہ پس مرگِ
گلے اٹھا لائے ہیں سنانے کے لیے
ہم روٹھ بھی جائیں ان سے مگر
وہ کہاں آئیں گے منانے کے لیے
آپ تشریف لائیں کے آپ کے قدم
ضروری ہیں ہمارے آستانے کے لیے
ہمارے سامنے غیر ہاتھ تھام لیا
انہیں اور نا سوجھی جلانے کے لیے
آپ سامنے آئیں ہمیں جینا ہے جہاں
مریض کو دوا چاہے شفا پانے کے لیے
More Love / Romantic Poetry






