تُو اگر جلوہ گر ہو جائے
شامِ غم کی سحر ہو جائے
اگر ہوتا رہے ذکرِ یار
سکونِ قلب میسر ہو جائے
کیسا ہوتا ہے غمِ فُرقت
کاش تجھے یہ خبر ہو جائے
برسوں سے ہے یہی آرزو
بیدار میری نظر ہو جائے
مہک سی ہوتی ہے محسوس
جہاں تیرا گُزر ہو جائے
اُگ نہیں سکتی فصلِ محبت
جب زمینِ دل بنجر ہو جائے
شفاء پا سکتا ہے مریضِ عشق
تُو اگر چارہ گر ہو جائے
جن پر ہے تیری نظرِ کرم
اُن میں شامل امر ہو جائے