تُو کن رنگوں کے لفظوں سے
اپنے فحش سوالوں کے ناخن بڑھاتی ہے
خوابوں کی دھندلی لذت میں
لڑکوں کی نیندیں اُڑاتی ہے
اپنے پرس کے آئینے میں
توُ خفیہ شَکل چھپاتی ہے
امرودوں سی چھاتیاں جن پر
ململ کی باریک سی دھوپ بچھاتی ہے
تیری جیبوں میں جنگلی دیو مالا
اور چہرے پر دھوئیں کا ہالہ بناتی ہے
اپنی شطرنجی جیسی آنکھوں میں
تُو کیسے نقشے بناتی ہے
کس غیبی بوسے کی خاطر
تیرے لب یوں کھلے ہوئے ہیں
آ ، میں تجھ کوخواہش کے
عریاں موسم میں رنگ لگاوں
بانہوں کے اِیزل پر تیرا چہرہ رکھ کر
ہونٹ سے تیری شکل بناؤں