مجبور ہوں زخم کھا کے میں
روتا ہوں آنسو چھپا کے میں
کل محفل میں تری یاد آئی
میں چاہ کے بھی نہ رو سکا،
تُو کیوں نہ میرا ہو سکا،
دن نکلتا ہے رات ہوتی ہے،
دھوپ لنکتی ہے برسات ہوتی ہے،
ہر شے ویسی ہے جیسی پہلے تھی
اِک بدلا ہے تو تُو بدلا ہے،
کیوں بدلا ہے تُو کیوں بدلا ہے،
ترے بعد جہاں سارا سوتا تھا
مگر میں نہ اِک پل سو سکا،
تُو کیوں نہ میرا ہو سکا
دل جلا کے گیا وہ اِس طرح،
کوہلہ جلاتا ہے کوئی جس طرح،
نہال پیار تو میں نے بُھلا دیا ترا
ترے ستم بھلائوں اب کس طرح،
کمی تھی میرے پیار میں شاید،
کمی تھی میرے اقرار میں شاید،
جو نہال کو تنہا یُوں چھوڑ دیا،
غم کے مجھکو ہار پہنا کے،
برہوں کی اَگنی میں جلا کے،
کھو دیا میں نے سب کچھ اپنا
پر یاد تمہاری نہ کھو سکا،
میں چاہ کے بھی نہ رو سکا،
تُو کیوں نہ میرا ہو سکا،