فاصلہ عشق کی منزل کا ہے دو چار قدم سالہا سال مگر اس کی تھکن رہتی ہے وقت ہر گھاؤ کو ہر زخم کو بھر دیتا ہے عمر بھر دل میں مگر اس کی چبھن رہتی ہے