تھی محبت ہے محبت ہوگئی
تھی شرارت ہے رفاقت ہوگئی
کیوں نہیں آتے ہو ملنے یار اب
تیری تو پوری شرارت ہوگئی
بے وفائی ہے جدائی کھا گئی
تھی عداوت ہے بغاوت ہوگئی
پوچھیے مت حال مفلس لوگوں کا
تھی جو کرنی وہ تجارت ہوگئی
سب یہ ارماں مل گئے ہیں خاک میں
تھی دباذت ہے شقاوت ہوگئی
مر رہے ہیں لوگ اب تو بھوک سے
خان تیری تو حکومت ہوگئی
شور کب شہزاد برپا ہے ادھر
ہوئی مہنگائی یہ عادت ہوگئی