میری بزم کو سجایا تیرا احسان ھو گیا
تو میرے ٹوٹے دل کا یوں مہمان ھو گیا
تیری آنکھ کا اشارہ میں سمجھا تھا دیر سے
تؤ مجھ پے مر مٹا تھا یہ گمان ھو گیا
چہرے پہ چھا رہی تھی ستاروں کی روشنی
میں تیری آنکھیں پڑھ کے پریشان ھو گیا
پھر تیری گلی میں تشنگان عاشق بنے رھے
کاسئہ لیے تھا ھاتھ میں سلطان ھو گیا
وہ روپ تھا حسن کا یا تجلی تھی چاند کی
میں خود کو نظر سے گرا کر بے ایمان ھو گیا
کیوں پوچھتے ھو مجھ سے میرے گھر کی سادگی کا
اب جو اداس در اور دیوارں کا اک مکان ھو گیا