تیرا دل پہ یہ ادھار لوٹاؤں گا کیسے
ہاں یوں پھر خود پہ سدھار لاؤں گا کیسے
کلیوں پر بہت بھنورے ہیں چوکس
اُس گلشن میں بار بار جاؤں گا کیسے
گرد تو سبھی مزاج انوکھے ہیں
آنکھ سے آنکھ یوں ملاؤں گا کیسے
دل تو رنگینوں میں گمنامی چاہتا ہے
مگر خود کو کھوکر پاؤں گا کیسے
امن میں خلل کے سوا کچھ بھی نہیں
عشق کے اس آزار کو سمجھاؤں گا کیسے
کچھ بغض پہلے بھی ٹھہرتے ہیں سنتوشؔ
عذاب پہ عذاب پھر نبھاؤں گا کیسے