اُس سے بچھڑ کے جینا محال سا ہے
زندگی کا ہر پل بے حال سا ہے
کس پے نکالوں کیسے بیان کروں
میرے دل میں جو اُبھال سا ہے
باندھا نہیں مجھے زنجیروں سے مگر
میری سوچوں پے اک جال سا ہے
اُس کے نچھڑنے کا بہت غم ہے مجھے
جو بچھڑ کے بھی خوشحال سا ہے
میرے اشکوں سے دیکھ لو غمِ یار
میرے اشکوں کا رنگ لال ل سا ہے
وہ آئے گا لوٹ کے اِک روز ضرور
دل میں اب بھی خیال سا ہے
بے وفائیوں پے گنوائیاں دینا اب
ترا ہر اشک نئی چال سا ہے
عروج مجھ پے بھی تھا قابلِ فخر
کیا ہوا جو اب زوال سا ہے
چاہنے والے ترے بہت ہے مگر
کوئی تو دکھاوں جو نہال سا ہے