تیرا ہی ایک نام سے مشہور ہو گیا
تم کیا گئے کہ زندگی سے دور ہو گیا
منظر تھا آنکھ بھی تھی تمنائے دید بھی
لیکن کسی کے دید پہ مجبور ہو گیا
بہتر ہے ہم بھی چشم جہاں بیں کو موند لیں
دنیا کے اب نظارے سے محصور ہو گیا
لو ساتھ دے چکی شب ہجراں کی زندگی
اب شام غم کو ساتھ ہے مغفور ہو گیا
کیوں میں نے اس کے پیار میں دنیا اجاڑ لی
دولت سے تو ذرا وہ بھی مغرور ہو گیا
اب بھی اداس اداس ہیں راتیں ترے بغیر
شبنم کو چار چاند لگا بے نو ر ہو گیا
محروم کیا کلام بھی اپنا فنا ہوا
وشمہ فروغ حسن سے مغرور ہو گیا