تیرا یوں دیر سے آنا ہمیں منظور نہیں
انتظار اتنا کرانا ہمیں منظور نہیں
آ کے اک روز تو بانہوں میں سما جاؤ ذرا
اک نیا روز بہانہ ہمیں منظور نہیں
ملنا رسما تو رقیبوں سے کوئ بات نہیں
پیار سے ہاتھ ملا نا ہمیں منظور نہیں
چوم لینے دے کسی روز تو ہونٹوں کے گلاب
روز شرمانا لجانا ہمیں منظور نہیں
کوئ تیر ایسا چلا کر دے جو دل کو گھائل
چوکنے والا نشانہ ہمیں منظور نہیں
دے دے تو اپنی محبت کی جو دولت جاناں
پھر یہ دنیا کا خزانہ ہمیں منظور نہیں
سایہ بھی چاہئے زلفوں کی گھٹاؤں کا ہمیں
صرف بارش میں نہانا ہمیں منظور نہیں
کیا مزہ زیست کا ہے تو ہی جو پہلو میں نہ ہو
کوئ موسم ہو سہانہ ہمیں منظور نہیں
پیار میں جھوٹی اناؤں کی اٹھیں دیواریں
ایسا دستور زمانہ ہمیں منظور نہیں
آ پلا نا ہے تو ہونٹوں سے پلا دے ساقی
جام ہاتھوں سے پلا نا ہمیں منظور نہیں
تیز طرار حسینوں کی ادا دیکھ حسن
ان کا انداز پرانا ہمیں منظور نہیں