تیرا یوں دیر سے آنا ہمیں منظور نہیں
Poet: Fazlul Hasan By: F.H.Siddiqui, Lucknow تیرا یوں دیر سے آنا ہمیں منظور نہیں
انتظار اتنا کرانا ہمیں منظور نہیں
آ کے اک روز تو بانہوں میں سما جاؤ ذرا
اک نیا روز بہانہ ہمیں منظور نہیں
ملنا رسما تو رقیبوں سے کوئ بات نہیں
پیار سے ہاتھ ملا نا ہمیں منظور نہیں
چوم لینے دے کسی روز تو ہونٹوں کے گلاب
روز شرمانا لجانا ہمیں منظور نہیں
کوئ تیر ایسا چلا کر دے جو دل کو گھائل
چوکنے والا نشانہ ہمیں منظور نہیں
دے دے تو اپنی محبت کی جو دولت جاناں
پھر یہ دنیا کا خزانہ ہمیں منظور نہیں
سایہ بھی چاہئے زلفوں کی گھٹاؤں کا ہمیں
صرف بارش میں نہانا ہمیں منظور نہیں
کیا مزہ زیست کا ہے تو ہی جو پہلو میں نہ ہو
کوئ موسم ہو سہانہ ہمیں منظور نہیں
پیار میں جھوٹی اناؤں کی اٹھیں دیواریں
ایسا دستور زمانہ ہمیں منظور نہیں
آ پلا نا ہے تو ہونٹوں سے پلا دے ساقی
جام ہاتھوں سے پلا نا ہمیں منظور نہیں
تیز طرار حسینوں کی ادا دیکھ حسن
ان کا انداز پرانا ہمیں منظور نہیں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






