اپنی آنکھوں کے سمندر میں اُتر جانے دے
تیرا مجرم ہوں ، مجھے ڈوب کے مر جانے دے
اب میں دوست نھیں جانوں گا تجھ کو کبھی
پہلے ماضی کا کوئی زخم تو بھر جانے دے
زخم کتنے تیری چاہت سے ملے ہیں مجھ کو
سوچتا ہوں کہ کہوں تجھ سے ، مگر جانے دے
آگ دنیا کی لگی ہوئی تو بُجھ جائے گی
کوئی آنسو میرے دامن پہ بکھر جانے دے