تیری اُمید ہے سزا، مجھے کیا
تُو چلا جا کبھی نہ آ، مجھے کیا
تیرا ہونا نہ ہونا دھوکہ ہے
سُن! حقیقت بھی ہو گیا، مجھے کیا
خود سے میری ذرا نہیں بنتی
جانیے کیا ہے ماجرا، مجھے کیا
قیس کے بعد دشتِ غربت میں
ہے کوئی مجھ سا سر پھرا، مجھے کیا
قصۂ خضر سن کے رُومی سے
اب کروں کس کو رہ نما، مجھے کیا
دل لگائے کہاں لگا اُس سے
تھا رقیبوں کا آشنا، مجھے کیا
روش اپنی سدا کی بیری ہے
منہ ترا خاک ناصحا، مجھے کیا
میں تو مجھ تک کبھی نہیں آیا
برہنہ پا تُو آ چکا، مجھے کیا
تُو جو یکبارگی جلا دل سے
دم میں بے ساختہ بُجھا، مجھے کیا
مر رہیں خواب سب کی آنکھوں کے
آسماں پر جلے دِیا، مجھے کیا
کیا اجازت ہے تلخ گوئی کی؟
پھر بھلے ہوں سبھی خفا، مجھے کیا
کچھ وفا نے تجھے دیا بھی کیا
خود فریبی کے مبتلا، مجھے کیا
کون ہوں میں مجھے نہیں معلوم
شخص یا اُس سے ماوراء، مجھے کیا
یہ مری عمر رائیگانی ہے
ہو ہر اک نفس کا بھلا، مجھے کیا
جل گئے ہیں سبھی دلی ارمان
دوزخ ِ غم بھڑک اُٹھا، مجھے کیا
ابھی تیشے میں میرے دم ہے بہت
تھک کے فرہاد گھر چلا، مجھے کیا
ٹل گئی تُجھ سے ہر بلا تیری
میں ابھی تک نہیں ٹلا، مجھے کیا
دِلِ نالاں پہ سوگ طاری ہے
اک ہی اپنا تھا مر گیا؟ مجھے کیا