تیری باتیں تیری یادیں تیرا چہرا خواب کر دونگا
عمرِ رواں کو ایسے جیوں گا کے عذاب کر دونگا،
دہر کی سوچ سے بھی اونچے ارادے ہیں میرے،
میں وقت آنے پے سب کو لاجواب کر دونگا
تیری فرقت کو کبھی نہ بننے دونگا عادت اپنی،
میں اپنی دنیا میں تجھے بے حساب کر دونگا
کاروانِ ابر لے کر میں جب تیرے کوچے سے گذرا،
خوشبؤِ فراق سے شھر کی گلیوں کو گلاب کر دونگا
رکھوالا ہوں تیری دہلیز کا یہ فکرِ لحد کی بات ہے،
کے مرونگا تو خد کو تیرے چہرے کا نقاب کر دونگا
وہ لمسِ ماضی میری آنکھ کا خواب تھے جیسے،
میں اب گذرے لمحوں کو رفہ دفہ جناب کر دونگا
تدفین میری کسی آگ میں ہی کر دینا احسن،
مئےنوشِ زمانہ ہوں ارضِ قبر کو خراب کر دونگا