تیری تجلی کو ترسے کیا مانگتے مگر پوچھا تو کر
پھر ان سنسان مکانوں پر کبھی لوٹا تو کر
تیری تجھ سے گلہ یا اپنے کیئے کی سزا
مجھ کچھ نہیں معلوم مگر پوُچھا تو کر
دل کی گود میں تم نے وہم کا بیج بویا
کیا وہ چمن بنے گا؟ یہ کبھی سوچا تو کر
محبتیں کبھی اتنا میراث نہیں لیتی
گر تجھے نہیں خبر تو کہیں سے پتہ تو کر
تیری بندگی بھی بس دل کا بہلاؤ رہ گئی
پوُج کے کسی کو تو اپنا خدا تو کر
عاشقی کے سراغ کیوں نہیں ملیں گے
اک بار اپنی اونچی رِدا تو کر
دیکھو اجڑتے ہیں ہم کس طرح سنتوشؔ
کبھی آکے یاد کو دل سے جدا تو کر