تیری تصویر نگاہوں میں سجانے کیلیے
میں چلا آتا ہوں تجھے اپنا بنانے کیلیے
تیری محفل میں آکر بھی چپ چاپ چلا جاتا ہوں
روز آتا ہوں میں حالِ دل سنانے کیلیے
میری طرح تو بھی دیوانہ ہو میرا شاید
یہ بھی کہتا ہوں کبھی میں دل بہلانے کیلیے
تو میری جان ہے کیسے میں چھپاؤں خود سے
روز ڈھونڈتا ہوں تجھے دل میں بسانے کیلیے
پھر نہ کہنا کہ تم بلا مقصد ہی چلے آتے ہو
میں تو آتا ہوں تجھے تجھ سے چُرانے کیلیے
تو دیکھ لیتا بے کبھی مسکراہٹ سے مجھے
اتنا ہی کافی ہے تیرے اِس دیوانے کیلیے
تو میرا ہو کر بھی، میرا نہیں پھر بھی لیکن
میں چلا آتا ہوں صبر آزمانے کیلیے
میری حالت ہے عجب تم کیا جانو گے صنم
روز کرتا ہوں تجھے یاد بھول جانے کیلیے
میرے جیسے بیں باقی اب تلک بھی دیوانے
ہے بڑی بات یہ بھی ساجد اس زمانے کیلیے