تیری تلاش میں ٹھوکریں کھائےجاتا ہوں
لوگ دروزہ نہیں کھولتےکھٹکھٹائےجاتا ہوں
کچھ دوست فون رکھ کر چلے بھی جاتےہیں
میں پھر بھی اپنی رام کہانی سنائے جاتا ہوں
میری شاعری سے انہیں الرجی ہے تو کیا
اس کی تعریف میں نظمیں بجھوائےجاتا ہوں
میں اس سے بات کرتا ہوں مسکرا کے
مگر تنہا ئی میں آنسو بہائےجاتا ہوں
اس سے بات کیے بنا تو مر تو نہیں جائے گا
اپنےہمزاد اصغر کو سمجھائےجاتا ہوں