تیری جفا کو ہم وفا ہی کا نام دیتے رہے
لے کر زخم بھی ہم شفا ہی کا نام دیتے رہے
تم معصوم تھےمشلِ فرشتہ یا ہم ہی تھے نادان
کہ دل دُکھانے کو ادا ہی کا نام دیتے رہے
پردہ ہٹا چہرے سے جو تو ہم خاک ہی ہو گئے
جَلوے کو پر ہم تو عطا ہی کا نام دیتے رہے
تیری زلف کی گہری چھاؤں نے تو مدہوش کردیا
ہم نادان اسکو گھٹا ہی کا نام دیتے رہے
وہ جو دیکھ کر بےبسی میری مسکراتا تو اسے
ہم دیوانے ساجد دوا ہی کا نام دیتے رہے