تیری جو روا ہو سکتی ہے
میری وہی دوا ہو سکتی ہے
ان صداؤں کی گونج میں
کسی کو دعا ہو سکتی ہے
موجوں سے مستی نہ لیا کر
زندگی بھی قضا ہو سکتی ہے
وہ آنکھ جھکا کر نکل گئے
شاید راہ جدا ہو سکتی ہے
ہو عشق میں صداقت اگر
ہر منزل فدا ہو سکتی ہے
تجھ سے جو میرا نام جُڑ گیا
سنتوشؔ یہ دنیا خفا ہو سکتی ہے