تیری خوشبو نہیں ملتی، ترا لہجہ نہیں ملتا
ہمیں تو شہر میں کوئی تیرے جیسا نہیں ملتا
یہ کیسی دھند میں ہم تم سفر آغاز کر بیٹھے
تمہیں آنکھیں نہیں ملتی ہمیں چہرہ نہیں ملتا
ہر اک تدبیر اپنی رائیگاں ٹھہری محبت میں
کسی بھی خواب کو تعبیر کا راستہ نہیں ملتا
بھلا اس کے دکھوں کی رات کا کوئی مداوا ہے
وہ ماں جس کو کبھی کھویا ہوا بچہ نہیں ملتا
زمانے کو قرینے سے وہ اپنے ساتھ رکھتا ہے
مگر میرے لئے اس کو کوئی لمحہ نہیں ملتا
مسافت میں دعائے ابر ان کا ساتھ دیتی ہے
جنہیں صحرا کے دامن میں کوئی دریا نہیں ملتا
جہاں ظلمت رگوں میں اپنےپنجے گاڑ دیتی ہے
اسی تاریک رستے پر دیا جلتا نہیں ملتا