تیری خوش قامتی پر میری نظر کیا کہنے
یہ ترے بندِ قبا تیری کمر کیا کہنے
اف یہ ایڑی کا گھمانا یہ پلٹنا تیرا
چکرا کے رہ گئے اک بار بھنور، کیا کہنے
تیرے لفظوں سے چمک اٹھے خدو خال مرے
لب ترے چاندنی کی راہ گزر، کیا کہنے
دل کسی طور کسی سے نہ سنبھالا جائے
آئنہ بھی کہے اتنا نہ سنور، کیا کہنے
اتنا پیارا ہے مجھے جانِ ادا جانِ غزل
جیسے صحرا کے مسافر کو شجر، کیا کہنے
ان کی حیرت پہ میں حیران ہوا جاتا ہوں
ہے ترے دیکھنے والوں پہ نظر، کیا کہنے
دِل کَشی حُسن میں ہے جادو بیانی سے تری
اے مرے حلقہِ اربابِ ہنر! کیا کہنے