تیری دل کے درمیاں رہے بھی تو نفرت کیلئے
ہمیں پھر اور کیا چاہیے اپنی ہجرت کیلئے
مانا کہ کچھ دیر خلش کی راہیں ملی تھی
یوں بھٹک کر بھی چلے تھے ایک حسرت کیلئے
عادتوں کی کائنات تو تم سے جُٹی رہی
پھر بچا بھی کیا تھا میری فطرت کیلئے
کچھ دیر کی ملاقاتوں اور محفلوں کے بعد شاید
ہر کسی کا جہاں بن گیا ایک فُرقت کیلئے
زمانے کے الزام سے یونہی بچنے خاطر سنتوشؔ
ہم تھوڑا زہر پی لیتے ہیں مُسرت کیلئے