دیکھا کریں تمہیں اور سوچیں بھی تجھی کو
عادت سی بن گئی ھے میرے دماغ کی
آؤ پھر سے تجدید دوستی کر لیں
شاید نظر لگ گی تھی ظالم سماج کی
ھم وہ نہیں جو مانیں حدودو قیود کو
دنیا تو مقید ھے رسم و رواج کی
آج شام جو ان کو ا یک نظر دیکھا گلی کے اس پار
خوشی ھم کو ایسی ملی جیسے عید کے چاند کی
میری مفلسی میری محبت کی قاتل بنی
ان کو ھمیشہ ھی طلب رھی زیور و داج کی
زخم تیرا نصیب اور کانٹوں پے ھے تیرا مسکن
ملکہ ھے وہ تو انجم پھولوں کے باغ کی