تیری محفل میں عاشقی کے بغیر
کیا سناؤں میں دل لگی کے بغیر
چشم حسرت سے بہہ رہا ہے لہو
غم کے دریا میں اب نمی کے بغیر
کیسی دوری ہے آج کل مجھ سے
کیسی رنجش ہے دشمنی کے بغیر
جب سے شامل ہوں بزم یاراں میں
تب سے زندہ ہوں دوستی کے بغیر
سب ستارے اداس بیٹھے ہیں
چاند نکلا ہے چاندنی کے بغیر
کشت امید اب بھی باقی ہے
اس دریچے میں تیرگی کے بغیر
غم کا موسم چھپائے بیٹھا ہے
سارا گلشن ہی اک کلی کے بغیر
زخم زندہ ہیں آج بھی وشمہ
اس محبت کی روشنی کے بغیر