تیری یاد ہے میری ہم سفر
تیرا ذِکر ہے میری راہگزر
میری چشم ہے تیری مُنتظر
تیری اِک جھلک کو ہے بے قرار
کب ختم ہو گا یہ انتظار
یہی سوچتا ہوں میں بار بار
کب ختم ہوں گے یہ فاصلے
اور دُوریوں کے وہ راستے
دُشوار ہے جِنہیں ناپنا
بس تڑپ کے ہے جنہیں کاٹنا
اس سفر میں، میرے سہارے ہیں
لو سنو تو کیا وہ اِشارے ہیں
تیرا ہنس کے مجھ کو پُکارنا
میرے ہر قدم کو سنوارنا
مجھے سوچنا، مجھے چاہنا
میرے غموں کو خُوشبوؤں میں ڈھالنا
جو گِرا تو، تُو نے اُٹھا لیا
مجھے ٹھوکروں سے بچا لیا
مجھے دے کے بانہوں کا آسرا
میرے دل پہ سر کو ٹِکا لیا
یُوں گرفت میں مجھے دی پناہ
جیسے اک خزانہ ہو پا لیا
میری ذات میری حیات کو
تیرے ساتھ نے جو ہے دی ڈگر
ہے دُعا میری، میرے ہم سفر
نہ ہو ختم اُس پہ کبھی سفر
تیری یاد ہے میری ہم سفر