تیرے بنِ زندگی تنہائی کا محورہی سہی
غمِ جاوادں راہ محبت کا ہمسفر ہی سہی
گھر قفس لگتا ہے، شہر اک زنداں کی طرح
میرے اس حال کی تجھ کو کوئی خبر نہ سہی
ہر قدم دُور زندگی سے لےے جاتا ہے
عشق پہنادے مجھے خاکِ پیراہن ہی سہی
سفر سے دوستی ہوئی ہے چلتا جاتا ہوں
خار سے دلگی صحرا سے اُنسیت جو سہی
تیرے بن عشق کے زندان میں کٹنی ہے عمر
ترے بن کچھ نہیں میں، بات مختصریہ سہی