تیرے بچھڑ جانے کے بعد کوئی احوال بھی ملتا
تو اس حال غنیمت کو کوئی حال بھی ملتا
میں اپنے سانس تک کوئی آس بھی رکھوں
کہ میری امید کو کہیں احتساب بھی ملتا
اُن منزلوں کا بھروسہ بھی یکساں نہ رہا
نہیں تو راستہ کہیں جاکر مُحال بھی ملتا
تیری رخی کو زمانے نے ضبط کیا بھی کیسے
مُجھے چہرہ اس جہاں میں کوئی ملال بھی ملتا
کہیں چمن میں چاہتیں بکھری بھی ہوتی تو
اِن پھولوں کی رنگت میں رَسال بھی ملتا
تو اپنے ہی مزاج سے گذر گیا سنتوشؔ
ورنہ میری جِبِلَت میں تیرا مثال بھی ملتا