دل بہلنے کا بہانہ تو بناتی جاؤ
جاتے جاتے ذرا ہنس کر ہی دکھاتی جاؤ
صرف اک بات کہ جس بات سے ہر بات گٸی
ہات کی بات ہے یہ بات بتاتی جاؤ
اور سے اور جگہ دل کو نشانہ کر کے
کچھ نۓ زخم پرانوں میں ملاتی جاؤ
أدمی نیند میں رہ کر بھی سفر کرتا ہے
میرے پہلو میں رہو ، ساتھ نبھاتی جاؤ
میں نے اک عمر نبھایا ہے کسی ہجر کا درد
تم بھی کچھ روز کا احسان چڑھاتی جاؤ
کاسہ ٕ جاں میں نٕۓ ہجر کا سکّہ دھر کر
مہربانوں میں مرے نام لکھاتی جاؤ
جس طرح دھوپ اڑاتی ہے گلابوں سے نکھار
ہاتھ اپنا مرے ہاتھوں سے چھڑاتی جاؤ
دھیرے دھیرے مری أنکھوں سے چُرا لو نیندیں
دھیرے دھیرے مرے خوابوں کو سجاتی جاؤ
تمھیں جانا ہے بحر حال چلی جاو مگر
اگلے دن رات کا نقشہ تو دکھاتی جاؤ
تیرے جاتے ہی لہو رونے لگا پھر آصف
سچ تو کہتا تھا کہ پاگل کو سلاتی جاؤ