تمہاری راہ میں لمحوں کا بدن ٹوٹتا ہے
جیسے آفاق پہ کرنوں کا بدن ٹوٹتا ہے
نہ آیا کر میرے خیال میں خراماں قدم
تیرے خمار سے لفظوں کا بدن ٹوٹتا ہے
میں بتاتا ہوں کیوں رہتے ہیں یہ بوجھل بوجھل
چاندنی رات میں تاروں کا بدن ٹوٹتا ہے
ندی کی مست روانی پہ ذرا غور تو کر
تمہارے عکس سے لہروں کا بدن ٹوٹتا ہے
اسی کا دست مسیحا ہی کام آئے گا
کہ جسکے نام سے سانسوں کا بدن ٹوٹتا ہے
یہ جو خوشبو سی پھیلتی ہے تیرے آنے پر
کسی احساس سے پھولوں کا بدن ٹوٹتا ہے
تمہیں معلوم ہے ناں میری ہر اک کمزوری
تمہارے حسن سے پلکوں کا بدن ٹوٹتا ہے
نہ درختوں پہ میرا نام لکھا کر جاناں
میری وحشت سے درختوں کا بدن ٹوٹتا ہے
مجھے لگتا ہے میرے نام کی مہندی چھو کر
تیرے ہاتھوں کی لکیروں کا بدن ٹوٹتا ہے
میرے الفاظ کو پڑھنا تو ذرا حوصلے سے
میرے اظہار سے یادوں کا بدن ٹوٹتا ہے