تیرے دل کے بھرے محفل سے ہم جُدا ہو کے چلے
دنیا بھی کیا عجیب ہے ہم دل پہ فدا ہوکے چلے
جانتا تھا کچھ نہیں ملتا جھوٹو اور مکار وعدوں سے
پر کیا کرے دل وہ نظر پر ہم ادا ہوکے چلے
زندگی کَٹ رہی ہے اُس کی بِنا اب تو لیکن
یادیں در یادیں اُس کی ہم کو ایک نِدا ہوکے چلے
یاد آتے ہے ہم محض ضرورت کی خاطر
جہاں گِرے سر بسُجود یادِ سدا ہوکے چلے
ترے وصل کے پروانے تو ہم آج کل بھی ہے
تہی قسمت اپنی ہی ہاتھوں سے بَدا ہو کے چلے
ہم بھی خُوب ناداں ہے مصّور غمِ ہستی میں
ویسی ہی غمِ بوجھ خود پہ لُدا ہوکے چلے