وہ جو داعوے دار ھے شھر میں
کہ میں سب ہی کا نبض شناس ھوں
کبھی آکر مجھ سے تو پوچھتا
کہ میں کس کے غم میں اداس ھوں
یہ تیری جدائی کا غم نھیں
یہ تو سلسلے ہی روز کے
تیری زات اس کا سبب نھیں
کئی دن سے یوں ہی اداس ھوں
یہ تیری امید کو کیا ھوا
کبھی تو نے غور نھیں کیا
کسی روز تو نے کھا تو تھا
تیری سانس تیری آس ھوں
یہ میری کتاب حیات ھے
اسے دل کی آنکھ سے پڑھ زرا
میں ورق ورق تیرے سامنے
تیرے رو برو تیرے پاس ھوں