اب مجھے ذرا محبت کی شرطوں پر پورا اترانا ہے
دل کی کچھ ناکام حسرتوں پر پورا اترانا ہے
دل تجھ سے ناشاد ہو کر بھی تیرا نام لیتا ہے
جو پوری نا ہوئی ایسی مسرتوں پر پورا اترانا ہے
دیپ محبت کے جلانے کی ہمت نا رہی مجھ میں
کالی رات کی وحشتوں پر پورا اترانا ہے
تجھ سے ٹکڑا کر کرچی کرچی بکھر جاتی ہوں
تیرے وجود کے پتھروں پر پورا اترانا ہے
لمحوں کے دامن میں کچھ ماضی کا زمانہ ہے
بیتی جو تیرے ساتھ انہی محبتوں پر پورا اترانا ہے
ابر کچھ صحرا سی چاہت کا سراب بن کر برسا مجھ پر
جو گذرے نادانی کے عالم میں ایسے وقتوں پر پورا اترانا ہے
میرا ہاتھ تھام کر چلا تھا وہ پچھلے سال ماہ جولائی میں
ہوئی نا مجھ پر محبت کی سارا سال ایسی برساتوں پر پورا اترانا ہے