تیرے پاس تجھ سے بہلتا جہاں ہے
میرا حال کب سے سنورتا کہاں ہے
آنکھ جو جھپکی کس نے سوچا
ابکہ کھویا کھویا لگتا لمحہ ہے
آؤ سرکشی کبھی بیٹھ کر سوچیں
کہ کس کا کہاں سنبھلتا جہاں ہے
تقدیر کے مارے کو تقدس کوئی دینا
اُس کا ستارہ چمکتا کہاں ہے
قدم سے قدم پھر ملتے نہ راہ کے
منزل کا راہی یوں پھسلتا یہاں ہے
میں نہ سوچتا میں نہ پوُچھتا
میرے جہاں کو ستاتا ارماں ہے