یہ کیسی بستی ہے جہاں چلے آئے ہم
تیرگی سی چھائی لگتی ہے ہر سو
تیرے وصال کی خاطر میں نے
نہ جانے کس کس کو صدا دی ہے ہر سو
ڈرتا ہے دل ان سناٹوں سے
جیسے صحرا کی تصویر اتر آئی ہے ہر سو
اے میری دوستو قریب آؤ
مجھے وحشت سی ہوتی ہے ہر سو
لفظ بے رنگ سے ہو گئے میرے
گردوغبار سی اڑتی ہے ہر سو
شب تنہائی کے سناٹے میں
لگتی بےجا حقیقت ہے ہر سو
امید وفا لے کر آئے تھے یہاں نور
لیکن لگتی ہر چیز لہو کی پیاسی ہر سو