تیرے ہی درد سے میں آشنا ہر دم رہا ہوتا
میری بگڑی سنور جاتی مقدر بھی جگا ہوتا
میری تو منزل مقصود یہ ہی منزل جاناں
یہی تو راہ ہے جس سے کہ پورا مدعا ہوتا
میری یہ آتش الفت بجھا سکتا نہیں کوئی
لگی یہ ایسی ہے جس کا مزہ سب سے جدا ہوتا
کوئی کیسے اٹھائے نازالفت کوئی آساں بھی ہے
مٹا دے اپنی ہستی تو مزہ کچھ چکھا ہوتا
کسے جا کر سنائیں داستاں حسرت بھری اپنی
کوئی اہل نظر تو اس زمانے میں دکھا ہوتا
بڑی مشکل سے آتا ہے ادب بھی بزم جاناں کا
یہ بھی تو سیکھنے کی چیز ہے آگے بڑھا ہوتا
کسی سے کوئی ملتا ہے تو کوئی بھی غرض ہوتی
تمنا اثر کی رہتی کوئی مخلص ملا ہوتا