تیر ے نام کی شمع جو جلاتے جاتے
سرِشام تیرا نام پُکارتے جاتے
نہ ملتا وقتِ رخصت ، کچھ تو مان رکھتا
کہ اپنا حا ل ہی سُناتے جا تے
تو پھر اشک کیسے قید کرتے جانِ صبا
کیسے یہ گوہرِ نایاب دُنیا سے چھپاتے جاتے
جاکے لوٹ آنے سے تیرے
غیر ممکن تھا کہ تجھ سے سنبھالے جاتے
پھر نہ مہلت دی کاتبِ تقدیر نے
کہ اک اور عمر اُس کے نام لگاتے جاتے