محبت میں آ گئی ہے شدت نہ جانے کیوں
ہونے لگی ہے خود سے وحشت نہ جانے کیوں
دل کے جنوں نے رنگ دیکھائے نہ تھے کبھی
اشکوں میں ڈھل گئ ہے صورت نہ جانے کیوں
تجھ سے دور ہو کے یہ میں نا جان سکا
ہر وقت رہ رہی ہے ضرورت نہ جانے کیوں
تیر ے وجود سے ا ے میر ے من کے تاجدار
ترس رہی ہے آس خلوت نہ جانے کیوں
باد صبا تو کب کی شبستاں سے گزر گئی
پھولوں میں بس گئی ہے نزاکت نہ جانے کیوں
بربادیوں کے تحفے لے کر چلے تھے ہم
پھر بھی دیکھا رہے ہیں شرافت نہ جانے کیوں
سب کے لئے تو وہ نظر آتے ہیں مہرباں
میر ے لئے ہے باقی عداوت نہ جانے کیوں
عارف ان سے آج ملنے کے باوجود
پھر بھی مچل رہی ہے طبعیت نہ جانے کیوں