جاتے جاتے وہ رخ سے نقاب اٹھا کے چل دیا

Poet: By: Peerzada Arshad Ali Kulzum, harrisburg pa usa

جاتے جاتے وہ رخ سے نقاب اٹھا کے چل دیا
خواہ مخواہ کیا بےقرار اور اکسا کے چل دیا

تم بجلی اور آگ کی بات کرتے ہو ہائے ہائے
وہ تو مجھے طور کا منظر دیکھا کے چل دیا

اس کی دید تھی آرزو شام سحر
آیا ظلم نشیمن جلا کے چل دیا

غم زندگی کی کہانی جب سنائی اس کو
وہ روکا چند لمحے اور سر ہلا کے چل دیا

بےرخی اس کی دیکھے میں کچھ بتا سکتا نہیں
راہوں میں پھر ملا وہ نظرے چرا کے چل دیا

کتنا بےرحم ہے وہ اس نے ظلم کی حد پار کر ڈالی
دل رکھا تھا روکنے کو کچلا اسے اور مسکرا کے چل دیا

تجھے کیا ہوا ہے ارشد تجھے کیا پراہ ہے کس کی
بجھا ہوا تھا وہ چراغ جو جلا کے چل دیا

Rate it:
Views: 795
01 Sep, 2010