وہ میری ایک رات بھی امر کر نہیں سکا
جادو تو جانتا تھا مگر کر نہیں سکا
تقدیر کے لکھے کو بدلنے چلا تھا وہ
اک حرف بھی اِدھر سے اُدھر کر نہیں سکا
میں بھی نہ رک سکا کسی منزل پہ درد کی
اور میرے ساتھ کوئی سفر کر نہیں سکا
اک کیفَ ناتمام میں گزری تمام عمر
نشہ بقدرِ ظرفِ ہنر کر نہیں سکا
جو سکھ ملا تھا تیری دعاؤں کے سائے میں
مان ! ویسی چھاؤں کوئی شجر کر نہیں سکا