ہِجر میں تیرے مبتلا ہو کر
ہم تو مرجائیں گے جدا ہو کر
بس تعلق بھی اس نے یوں توڑا
جیسے پنچھی اڑا رہا ہو کر
اس نے محسوس بھی نہ ہونے دیا
"جارہا ہے کوئی خفا ہو کر "
ہم کو آیا نہیں منانے کوئی
ہم نے دیکھا ہے یہ خفا ہو کر
جس کی فطرت میں دشمنی ہوگی
دھوکہ دے گا وہ آشنا ہو کر
یہ جو جھک کر سلام کرتا ہے
سب سے ملتا ہے پارسا ہو کر
اس سے پوچھو ذرا وفا کیا ہے
گر پڑے گا یہ آئینہ ہو کر