تجھے لکھا ہے بہت میں نے اپنے گیتوں میں
تیرا سراپا مکمل نہ ہو سکا پھر بھی
ہوا کچھ ایسے کہ لفظوں کا جال پھینکا تھا
افق پہ ایک ستارہ چکلار کرنے کو
ہے یوں کہ شوقِ فزوں میں جو اوک بھر لی تھی
ڈبو کہ ہاتھ سمندر کے گہرے پانی میں
تو نیلِ آب سمندر کا ہاتھ آیا نہیں